81

گاؤں کا کلچر ایک نظر میں ?

1950۔ 60 کی دہائی میں بیوٹی پارلر کا رواج نہیں تھا اور نوجوان لڑکیاں اور ماؤں بہنوں کا بازار آنا جانا کم تھا۔

چوڑیوں پراندہ اور سرمے دنداسے کا شوق بھی تھا۔ اور سادہ ماحول اور رواج بھی یہی تھا۔ سرخی پاوڈر نہیں تھا۔ یہ چیزیں بیچنے والیاں عورتیں گاوں محلے میں پھر کر آوازیں لگاتیں تھیں۔ اسکے لئے ونگاں چڑھانے والی ونگیاری گلی گلی پھرتی تھی۔ وہ کوئی درمیانی عمر کی عورت ہوتی تھی اور صدا لگاتی تھی۔ ونگاں لو چڑھانی کڑیو ۔ رنگ بررنگیاں ونگاں ۔ کچ دیاں ونگاں ۔ ہر رنگ اور سائز کی چوڑیاں اس کے ٹوکرے میں ہوتی تھیں۔ نوجوان لڑکیاں جب ونگیاری کی آواز سنتی تھیں تو حویلی میں بلا لیتی تھیں۔ محلے کی ساری کڑیاں اکٹھی اس کے ارد گرد بیٹھ کر اپنی اپنی پسند کے رنگوں والا چوڑا چڑھا لیتیں۔ چوڑا عموما 12 ونگوں کا ہوتا تھا۔ کئی کڑیاں دونوں کلائیوں میں چھ چھ ونگاں چڑھا لیتیں۔

ونگیاری کلائی کا ناپ لے کر کہتی کہ یہ آپ کے ناپ کی ہیں۔ رنگ پسند کریں۔ لڑکیاں رنگ پسند کرتیں اور ونگیاری بڑی مہارت سے پورا چوڑا چڑھا دیتی تھی۔ کئی دفعہ کلائی بڑے سائز کے ہوتی تو کچھ ویسلین یا سرسوں کا تیل وغیرہ لگا کر چڑھا دیتی ۔ کئی دفعہ چوڑیاں چڑھاتے چڑھاتے چند چوڑیاں ٹوٹ بھی جاتیں تھی۔ لیکن ان کا حساب ونگیاری نہیں کرتی تھی۔ کئی نوجوان لڑکیاں اپنے کپڑوں سے میچ کر کے چڑھاتی تھی۔ کئی لڑکیاں سات رنگوں کا پورا 12 ونگوں والا چوڑا چڑھا لیتیں تھیں۔ کڑے بھی کالے کالے ہوتے تھی کوئی اپنی گوری کلائی پر کالے رنگ کے دو کڑے چڑھا لیتیں۔
محلے کی ساری کڑیاں ونگیارن کے ارد گرد بیٹھ جاتیں۔ اور اپنی اپنی مرضی کے رنگ رنگیلے چوڑے چڑا لیتیں۔ چھوٹی بچیوں کے لئے بھی سائیز موجود ہوتے۔ اپنی چھوٹی بہنوں کو بھی رنگ کی مناسبت سے چوڑیاں کڑے چڑھا لیتیں۔ اگر کوئی خوبصورت بچی ہے تو نظر نہ لگنے کے لئے کالے کڑے پہنا کر خوش ہو جاتیں۔کئی لڑکیاں اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی کڑا چڑھا لیتیں تھیں۔

یوں ونگیارن کا بھی دال روٹی چل جاتی اور کڑیاں بھی خوش ہو جاتیں کہ کرایہ بچ گیا۔ کون موتی بازار لے کر جائے گا۔

سرمے دنداسے پراندے کلپس اور انگوٹھی والا بھی آ جاتا۔ دنداسہ دانتوں پر ملنے سے دانت بھی چمکدار ہو جاتے اور ہونٹوں پر روپ بھی آ جاتا تھا۔ سرخی کی ضرورت نہیں تھی۔ نہ کوئی سرخی لگاتی تھی۔ سرمے دنداسے پراندے انگوٹھیوں والا گاوں گاوں پھرتا وہ بھی جب محلے میں آکر آواز لگاتا کہ سرمہ دنداسہ اور پراندہ کلپ لو ہر رنگ کے اپنی اپنی پسند کے لے لو۔ وہ جب آتا تو اس کو حویلی میں بلا کر محلے کی سب عورتیں لڑکیوں سمیت آجاتیں۔ اور خوب اپنی اپنی پسند کی چیزیں لے لیتے۔ سرما دنداسہ ہی میک اپ تھا یا پراندہ۔ پراندہ پوٹھواری ثقافت کا ایک خوبصورت رنگ تھا۔ لمبے بالوں میں لال یا کالا پراندہ بڑے سٹائل سے لگاتے تھے۔ کلپ رنگ برنگے بھی اسکے پاس سے مل جاتے تھے دونوں طرف بالوں کو قابو کرنے کے لئے رنگ برنگے ہر سٹائل کے کلپ لگائے جاتے ۔ بالوں کی مینڈیاں کرتے یعنی کئی شاخیں کر کے پھر ایک گت کرتے کئی لڑکیاں دو پراندے اور دو گتاں کرتیں تھیں۔ پوٹھواری میں ایک گانا بھی تھا۔ مائے میریے نی دو گتیاں کر میریاں سرسوں کا تیل گاؤں سے بالے تیلی کے کولہو سے خالص نکلتا تھا۔ اس تیل سے بال بھی لمبے ہو جاتے تھے رنگ بھی گورا ہو جاتا تھا۔ کریم پوڈر کوئی نہیں تھا۔

چھوٹی بچیوں کے کان چیھدنے یعنی کان میں سوراخ کرنے والی بھی آ جاتی۔ کئی لڑکیوں کو شوق ہوتا تھا کہ تین تین سوراخ دونوں کانوں میں کرا لیتیں۔ ناک میں لونگ کے لئے سوراخ کر لیتیں۔ میں نے خود دیکھا کئی عورتوں اور لڑکیوں کو تین تین مندریاں کانوں میں لٹکائے ہوے۔ اور ناک میں بھی نتھڑی۔ یا تیلہ جس کو لونگ کہتے ہیں۔ مسرت نذیر کا گانا بھی ہے، میرا لونگ گواچا سب نے سنا ہو گا۔ جب کوئی نیا گھر بنتا یا کسی کی شادی یا بچہ پیدا ہوتا تو ڈھوم اور نٹ ترلائی کے قریب چھپر میر خنال سے ڈھول لے کر آتے۔ اور ودھائی لے کر جاتے۔ ہمارا گھر بھی نیا بنا تھا اور دیار کے دروازوں پر سہرا گانا باندھتے تھے اور چھت کے بنیرے پر کالی مٹی کی کٹوی الٹی کر کے رکھ دیتے تھے تاکہ نظر نہ لگے۔ دن کا وقت تھا۔ کسی نے ان نٹنیوں کو بتایا کہ راجے نیا گھر بنا رہے ہیں۔ تو چھپراں سے چار پانچ نٹنیاں ڈھول لے کر ہمارے صحن میں آکر ڈھول بجانا شروع کیا اور پوٹھواری گیت گانا شروع کر دیے۔ وہ خود بھی جوڑ لیتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کہہ رہی تھیں بھاگ لگے رہن راجیاں نوں۔ میری بڑی بہنیں بھی چارپائی پر دریک اور توتوں کی چھاوں میں بیٹھی تھیں۔ انہوں نے بلوچنی نٹنی جو سب کی سردار تھی اس کو کہا کہ ہمارے بھائی قدیر کا نام لے کر گال یعنی گانا گاو۔ ان میں ایک نارو نٹنی تھی وہ فوراً گانا جوڑ لیتی تھی۔ انہوں نے میری بہنوں سے پوچھا آپکے بھائی کا کیا نام ہے۔ میری بہن نے کہا قدیر۔ تو نارو نٹنی نے گال یعنی گانا شروع کیا (قدیر خان کوٹھے نوے چڑائے ہوے نی پنج پنج باریاں چھ چھ روشندان رکھائے ہوئے نی) باقی نٹنیاں بھی اس کے۔پیچھے پیچھے ایک کورس کی طرح گانا شروع کر دیا اور بھی کافی تعریفوں کے پل باندھے۔ تو میری والدہ نے ایک روپیہ ان کا ودھائی دی۔ وہ بہت خوش ہوئیں اور دعائیں دیتی رہیں۔ بیل بیل قدیر کے نام کی بیل اللہ کرے بھاگ لگے رہن کافی دفعہ دوہرایا اور رخصت ہو گیئں۔ اس وقت ایک روپیہ آجکل کے ہزار روپے کے برابر تھی۔

جب گاوں کے کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوتا یا سنتیں کراتے تو پتہ نہیں ان کو کیسے خبر ہو جاتی۔ بانکا نٹ نٹوں ڈھوموں کا سردار تھا۔ بڑا زبردست ڈھول بجاتا تھا۔ گاوں کے باہر سے ہی ڈھول پیٹنا شروع کر دیتا ۔ گھر پہنچ کر خوب ہلا گلا کرتا۔ بھاگ لگے رہن راجیاں نوں۔ بڑی نقلیں بھی لگاتا اور تعریفوں کے پل باندھ کر ودھائی لیتا کافی رشتہ دار بھی خوشی سے اس کو بیلیں کراتے۔ اور بڑے زور سے کہتا بیل بیل فلاں راجے چوہدری کی طرف سے بیل۔ بیل تو ایک روپے کی ہوتی لیکن وہ کہتا بیل بیل پنجاں تے باراں نی بیل۔ ودھائی لے کر دعائیں دیتا ہوا ڈھول بجاتا بجاتا رخصت ہوتا۔ نہ ملے تو بہت نقلیں لگاتا تھا اور لے کر چھوڑتا تھا۔ ایک گھوڑی راجہ بھی آتا تھا بچے کا ہاتھ دیکھ کر اس کی قسمت کا حال بتاتا ہوتا تو جھوٹ موٹ تھا۔ لیکن پیسے لے کر کہتا یہ بچہ بہت قسمت والا ہو گا۔

ایک عورت بھی کوئی قاعدہ لے کر آتی تھی جس میں سانپ بچھو کی تصویریں ہوتی یا جنت کے باغات کا نقشہ ہوتا۔ محلے کی عورتیں اکٹھی ہو جاتیں۔ وہ کہتی اس میں روپیہ رکھو پھر جو صفحہ کھلتا اس کی تصویر سے جنت دوزخ کے قصے سناتی۔ جنت دوزخ کے قصے سناتی اور پیسے بٹور کر چلی جاتی۔ ایک دفعہ وہ یہی کچھ سنا کر عورتوں کو ورغلا رہی تھی۔ تو ہمارے گاوں کے ایک بزرگ نے اسکو پیچھے سے دو ڈنڈے مارے۔ اٹھو سب جھوٹ گھڑ کر سیدھی سادی عورتوں سے پیسے لے رہی ہو۔ میں دیکھ رہا تھا تم نے یہ قاعدہ زمین پر رکھا اور پیشاب کیا۔ اور وضو کے بغیر قاعدہ اٹھا کر ان کو کھول کر جنت دوزخ کے قصے سنا رہی ہو۔ اس کو میرے سامنے دو ڈنڈے مار کر بھگایا۔ میری عمر کوئی چار سال ہو گی۔ یاد ہے ذرا ذرا۔ پھر کبھی وہ عورت نظر نہیں آئی۔ سادے زمانے تھے۔ ریڈیو ٹی وی بجلی کچھ نہیں تھا۔ بس یہی مصروفیات تھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں