58

عدم برداشت

تحریر: سدرہ ثاقب

پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو صرف قانون کی علمداری کا بیڑا اٹھانے کے عہد کے ساتھ اس منصب پرفائز ہوئے اور قانون کی اس پاسداری کے چکر میں دنیا جہان کواپنا دشمن بنابیٹھے سوشل میڈیا پر مختلف جماعتوں اور گروہوں کی جانب سے ان پر الزامات و دشنام طرازی کی ساری حدیں پار کر لی جاتی ہیں مگر ایک حالیہ واقعہ نے مجھے جھنجوڑ کر رکھدیاایک جلسے میں ایک مذہبی جماعت کے رہنما نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کردی اس خبر کو مین سٹریم میڈیا و سوشل میڈیا کی جانب سے بھرپور اہمیت دی گئی اس کے بعد ایک اور شخصیت نے دو کروڑ انعام دینے کا اعلان کر دیا اگر چہ ایسا ہونا ممکن نہیں مگر ہمارا معاشرہ ذہنی مریض بن چکا ہے جہاں لوگ انتہائی سنگین معاملے کو مذاق اور چھوٹی سی بات کو ہاتھی بنا کر پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ںہت سی معصوم زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں.

ماضی میں ایک خاتون کو بازار میں عربی الفاظ لکھا کپڑا پہننے کی پاداش میں توہین مذہب کے الزام کا شکار ہونا پڑا اور اس کو لوگ مارنے کے لئے اکٹھے ہو گئے کسی نے بھی اصل بات جاننے کی زحمت ہی نہیں کی اور جب حقیقت سامنے ائی تو پتا چلا یہ قرآنی ایات نہیں ہیں سعودی عرب کا ایک معروف کپڑوں کا برانڈ ہے اور جو لفظ اس پر لکھا ہوا اس کا مطلب خوبصورت ہے مزہبی انتہا پسندی کی یہ فصل اج کی نہیں بلکہ پچھلے پچھتر سالوں سے سے اس کی آبیاری کی جا رہی ہے یہ سب کچھ اپنے ذاتی مفادات کے تحت کیا گیا اور کیا جارہا جس طرح مزہبی دہشت گردی کی یہ فصل بوئی گئی اوراس کی دیکھ بھال کی گئی تو آنے والی نسل کو اس کا پھل کاٹنا پڑ رہا ہے پاکستان کے 80 فیصد بہترین دماغ جن میں ڈاکٹر انجینئر بینکرز صحافی مصنف شاعر فنکار ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں یا جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ہر انسان پاسپورٹ بنانے کی تگ و دو میں ہے لمبی لمبی قطاروں میں پاکستان کے ںہترین دماغ لگے ہوئے ہیں تاکہ اس ملک کو چھوڑ سکیں اخر آج یہ نوبت کیوں آئی ہے کیوں لوگ ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا پسندکر رہےوجہ ہے ہر قسم کی انتہا پسندی ہم بحثیت قوم انتہا پسند ہو چکے جاہے وہ مذہبی انتہا پسندی پو یا سیاسی ہر بات میں مرنے مارنے پر تیار نہ ہم سوچتے ہیں نہ سمجھتے ہیں بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح جدھر کسی نے ہانک دیا چل پڑتے ہیں اس وقت ملک انتہا پسندوں اور نادیدہ ہاتھوں کے گھیرے میں ہے غیرت کے نام پہ قتل بچیوں کی تعلیم اور مخلوط اداروں کے خلاف فتوے جہاد کی غلط تشریح اور مذہب کارڈ کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا وطیرہ بن چکا ہے اور اسے کسی بھی انسان کی ازادی کے خلاف اور اسکی زبان بندی کے لئے ایک مہلک ہتھیار کے طور پراستعمال کیا جا رہا ہے ۔

مسحی برادری کے گھروں کو جلانا اور ان پر گستاخی کے جھوٹے الزامات لگا کران پر مقدمے درج کروانا انہیں خود ہی سزا دینا ان کی زندگیاں چھیننا اور اس سب میں اداروں میں موجود کالی کرپٹ بھیڑیں اور ان کے سہولت کار پیش پیش ہوتے ہیں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا ہے گوجرانوالہ میں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو بل زیادہ انے پر جان سے مار دیا پوری قوم کو بجلی کے بلوں نے بلبلانے پر بلکہ چیخیں مارنے پر مجبورکردیا ہے مہنگائی نے غریبوں کو بال بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور کر دیا ہے انصاف لینے جاؤ تو الٹا مدعی کو پھنسا دیا جاتا ہے ہم 2024 میں جی رہے ہیں جہاں ہرچیزسوشل میڈیااور انٹر نیٹ پر دستیاب ہے معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہم بحثیت قوم بالکل تباہ ہو چکے ہیں ہمارے حکمران دوسرے ملکوں سے بھیک مانگتے ہیں اوراس قرض کو عوام پر خرچ کرنے کی بجائے اپنی جائدادیں دنیا کے ہر براعظم میں بنانے میں مصروف ہیں اور بلیک منی سے پاکستان میں اپنے مفادات کے لئے انتہا پسندی کو فروغ دینے میں سب ارادی یا غیر ارادی طور پر شامل ہو جاتے ہیں.

جس ملک کاچیف جسٹس مذہبی انتہا پسندی سے محفوظ نہ ہو وہاں ایک عام ادمی یا عورت کس طرح اپنے حقوق اور حقیقی آزادی کے لئے اواز بلند کر سکتے ہیں ایک سیاسی جماعت کی خواتین کو بنا وارنٹ اور ںلاوجہ رات کے اندھیروں میں گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے دور حکومت کسی کا بھی ہو مخالفوں کے لئے رویہ ایک ساہوتا ہے جو اج مظلوم ہے وہ کل ظالم تھا جو اج ظالم ہے وہ کل مظلوم تھا مگر سبق کوئی نہیں سیکھتا. بلوچستان کیا پورے ملک میں گمشدہ افراد کا کوئی پتا نہیں ان کے لواحقین کی حالت زار کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ان کے حق میں اواز اٹھانے والے کو کفر کے غداری کے سرٹیفکیٹ دے کر چپ کروا دیا جاتا یا وہ جان ومال آبرو بچانے کے لئے ملک چھوڑنے پہ مجبور ہو جاتا میرا پاکستان کے نظام انصاف سے لاکھ اختلاف سہی مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت اور عدلیہ کے سربراہ کو دھمکیاں دینا اور ان کے سر کی قیمت سر عام مقرر کرنا انتہائی قابل مذمت اقدام ہے اور یہ ہمارے اداروں کا امتحان ہے کہ ان کرداروں کو ان۔کے سہولت کاروں کو نہ صرف بےنقاب کیا جائے بلکہ قرار واقعی سزا دے کر لوگوں کو بتایا جائے کہ پاکستان پچیس کروڑ افراد کا ملک ہے کوئی بنانا ریپبلک نہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لئے مذہب کا استعمال انتہائی غلط بات ہے اسے بند ہونا چاہئیے سیاست اور مذہب کو الگ ہونا چاہئے اگر ہم سب اپنے تعصب اور مفادات کی عینک کو اتار دیں گے تب ہی یہ ملک اور اس کے افراد ترقی کر سکتے ہیں اور یہ بھیڑ ایک قوم بن سکتی ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں