تحریر: ظہیر سلہری
بھارتی فلم ”بارہویں فیل “ ہر اس سیلف میڈ دیہاتی کی داستان ہے جو توقعات کا بوجھ اٹھائے اپنے گاﺅں سے رخصت ہوا اور پھر ایک ایسے اجنبی شہر میں ڈیرے جماتا ہے کہ جہاں اس کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ بڑی بڑی عمارتیں اور سٹرکوں پر ایک دوسرے سے آگے نکلتی گاڑیوں کی بھیڑ اور رنگ برنگ بتیوں کی چکاچوند اسے چکرا کر رکھ دیتی ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ اس سادگی اور کسمپرسی کے ساتھ وہ اس شہر میں کامیابی کی ریس آخر کہاں سے شروع کرے۔ اس فلم کے کئی ایسے منظر اور مکالمے ہیں کہ جو ہم جیسے لوگوں کی آنکھیں نم کر دیتے ہیں۔ یادوں کے جھکڑ چلے اور کچھ باتیں یادآئیں۔
2005ءمیں اگست کا مہینہ تھا جب پہلی بار لاہور میں دربار حیدر سائیں نزد لاری اڈا بس سے اترا اور گائیڈ لائنز کے مطابق بس نمبر 24پر بیٹھا۔ لاری اڈا سے برکت مارکیٹ کا کرایہ سات روپے تھا ، سٹوڈنٹ سے پانچ روپے بھی لے لیتے تھے۔ برکت مارکیٹ میں ”کے ایف سی“ سے ملحق عمارت میں لیڈر شپ کالج ہوا کرتا تھا جو کہ ”یو ایم ٹی “ والوں کا پراجیکٹ تھا۔ اس میں ایک فیملی ریفرنس سے داخلہ لیا اور اب باقاعدہ کلاسز کا آغاز ہونے والا تھا۔کالج کے انتخاب اورایڈمشن والے ٹور میں آنٹی ماں کی سی شفقت چھڑکتی رہیں تو دل میں اک بھرم سا قائم ہوگیا ۔ خونی رشتہ تو کوئی نہیں تھا مگر اسی بھرم کو لے کر کسی رہائش کا بندوبست کئے بنا دوبارہ برکت مارکیٹ ان کے سامنے پیش ہوگیا ۔ گھرمیں رہنے کی گنجائش کم تھی۔ انکل نے اپنے ایک جاننے والے کے ساتھ رخصت کیا کہ یہ قریب ہی رہتے ہیں ان کے ساتھ ہی تم بھی کہیں ایڈجسٹ ہوجاﺅ۔ اگرچہ گرمیاں تھیں مگر میرے پاس کپڑوں کے ایک بیگ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ آنٹی نے دو چادریں اور ایک تکیہ دے دیا۔ تاکہ جہاں بھی جاﺅں چادریں بچھا کر سو تو سکوں۔ انٹر کالج میں کلاس فیلو دوست ملک عدنان نے اپنی دوکان سے ایک کپڑوں والا بیگ مجھے 175روپے میں دیا اور بتایا کہ یہ قیمت خرید ہے ،ایک روپیہ اوپر نہیں، زندگی میں سکول کے علاوہ یہ پہلا بیگ خریدا تھا ۔وہ بیگ ، تکیہ اور چادریں اٹھا کر میں سڑک کنارے چل رہا ہوں۔ اس عمر رسیدہ مہربان اجنبی( شوکت صاحب ) کہ جس نے اب میرا روم میٹ ہونا تھا زبردستی بیگ پکڑ کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ ایک نئے شہر میں خانہ بدوشوں کی مانند سٹرک کنارے چلتا جا رہاہوں۔برکت مارکیٹ میں اب جہاں آپشنز کیفے ہے وہاں سے لے کر شان آرکیڈ پلازے تک خالی جگہ تھی ۔ سڑک کے پار ایک گاﺅں نماں آبادی میں وہ شخص داخل ہوگیا ۔میں اس کے پاﺅں پر پاﺅں رکھتا جاتا ۔نشانیاں یاد کرتا گیا لیکن گلیاں اتنی چکرا گئیں کہ سب گڈ مڈ ہوگیا۔ وہ ایک گھر میں داخل ہوا۔جس کے احاطے میں سامنے پانی والی موٹر بین کررہی تھی اور سیدھے ہاتھ ایک کمرے کے باہر پندرہ سے بیس جوتوں کے جوڑے بکھرے پڑے تھے۔ اسی کمرے میں ہم داخل ہوئے ۔ کیا دیکھا کہ مزدورانہ حلئے والے دس پندرہ بندے بیٹھے ہیں اور کمرے میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ،سب مل کر کرکٹ میچ دیکھ رہے ہیں اور تقریبا بڑھکیں لگا رہے ہیں۔ ان کے لیڈر کے کہنے پر وہ سب تھوڑا تھوڑا کھسکے تو بیٹھنے کے لئے جگہ بنی۔ آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا ہوگا کہ میرا دم گھٹنے لگا۔ میں نے شوکت صاحب سے معصومیت سے پوچھا ” ا نکل کیا ہم یہاں رہیں گے “ ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرا بھانجا بھی آپ کے کالج میں داخل ہوا ہے ، میں تو یہیں رہتا ہوں مگر آپ دونوں کےلئے اب نیا کمرہ تلاش کروں گا اوروہیں اکھٹے رہیں گے۔تب تک یہیں رہنا ہوگا۔ یہ سن کر میں نے ان چہروں کو دوبارہ دیکھا ،مجھے الجھن ہونے لگی ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ سب مزدور لاہور شہر کی سڑکوں پر بینر اور بل بورڈز لگانے کا کام کرتے ہیں ، وہ لیڈر اصل میں ٹھیکیدار تھا ۔ لیکن اس قسم کے لوگوں کے ساتھ رہنے کا سوچ کر دل بیٹھنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد ہم برکت مارکیٹ سے ملحق گاﺅں “جیون ہانہ” کی گلیوں میں کرائے پر کمرہ تلاش کرنے لگے ۔اس گاﺅں میں اکثریت گجر برادری اور عیسائیوں پر مشتمل تھی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ گارڈن ٹاﺅن کی باہوں میں باہیں اس گندے گاﺅں نے ڈالی ہوں گی۔ ہر گلی سے گزرتے ہوئے کسی نہ کسی چائے والے ہوٹل یا دودھ کی دوکان سے نصیبو لال کی خوفناک آواز آتی ”وے گجرا وے “۔ دودھ کی کڑاہی بلکہ کڑا ، کے پیچھے دھوتی بنیان پہنے بڑی بڑی موچھوں والے گجر اس آواز پر یوں چوڑے ہوتے گویا یہ آواز ان کو دی گئی ہو۔ جیون ہانہ کی گلیوں میں ہر چار گھر کے بعد ایک دودھ دہی کی دوکان تھی۔ ایک نسبتا نئی تعمیر شدہ عمارت میں ہم داخل ہوئے ، کمرہ در کمرہ ،فلو ردر فلور پھرتے ، دروازہ بجاتے کوئی باہر نکلتا، پوچھتے ، یہاں کوئی کمرہ خالی ہے ۔ تقریبا بیس سے زیادہ ”نہیں “سن کر ہم مایوس لوٹنے والے تھے کہ ایک کمرے سے نوجوان لڑکے نے آواز دی۔
”آپ کو کمرہ چاہئے “
”جی چاہئے “
”ہم آج رات سحری کے بعد یہ کمرہ چھوڑ رہے ہیں ، آپ لوگ یہ رکھ لو، مالک مکان کو کوئی ٹینشن نہیں ،بس اسے مہینے بعد کرائے سے غرض ہے “
شوکت صاحب مجھے وہاں چھوڑ کر سامان لینے چلے گئے ۔ ان کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھا کہ کتابیں بکھری پڑی ہیں۔ ان پر سی ایس ایس ، اور پی ایم ایس لکھا ہوا ہے ۔اس کے علاوہ انگریزی اخبار کے تراشوں کا ایک ڈھیر کمرے کے ایک کونے میں پڑا تھا۔ دو لڑکے تھے جو سی ایس ایس کی تیاری کررہے تھے اور اب رہنے کی جگہ بدل رہے تھے۔ میں ایک کونے میں سہما سا بیٹھارہا کہ ایک اجنبی شہر کی گلیاں چھان کر ، نہیں معلوم کن کے کمرے میں آ بیٹھاہوں۔ دو گھنٹے بعد شوکت صاحب میرا بیگ دے گئے اور کہہ گئے کہ آپ یہاں رات رکو، صبح ان سے چابی لے لینا ،میں اور قاسم (ان کا بھانجا ) کل آجائیں گے ۔ میں گھبرا گیا ،مگر ان کے ساتھ کون سی بے تکلفی تھی جو ان سے کہتا کہ یہ آپ مجھے کہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔مجھے تو گلیوں کا بھی نہیں پتہ ۔میں یہاں کیسے رہوں گا۔ مگر میرے منہ سے صرف ”ٹھیک ہے “نکلا اور وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔ افطا ر کا وقت ہوا۔بھوک سے جان نکل رہی تھی۔میں نیچے گلی میں گیا ،ساتھ ہی ایک ہوٹل تھا ۔وہاں جا کر بیٹھ گیا۔ انتہائی غلیظ قسم کا فرنیچر، مومی کاغذ کا پردہ ،میلے سے بیرے نے پھٹی ہوئی آواز میں ڈانٹا ”کیا کھاﺅ گے “۔ میں نے کہا کہ جب اذان ہونے لگے تو آلو گوبھی اور روٹی دے دینا۔ افطار کا وقت ہوا۔سترہ سال کی عمر تک یہ پہلی افطاری تھی کہ جس میں نہ کوئی پکوڑا تھا نہ کھجور شربت۔ تندور کی جلی ہوئی روٹی کا ٹکڑا میرے منہ میں چبھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ یااللہ ! یہ میں کدھر پھنس گیا ہوں ۔ بے دلی سے کھانا کھایا اور بل دے کر واپس کمرے میں آ گیا۔ ایک کونے میں دبکا رہا اور وہ لڑکے اپنی کتابیں اور کپڑے وغیرہ پیک کرتے رہے ۔ابھی عشا بھی نہیں ہوئی ہوگی کہ میری آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ انہوں نےدیکھا تو لڑکا بولا ، لگتا ہے آپ جلد سونے کے عادی ہیں۔”ہماری پیکنگ چلتی رہے گی آپ سوجاﺅ“۔ میں نے ایک کونے میں آنٹی کی دی ہوئی چادر بچھائی ، تکیہ رکھا اور دوسری چادر تان کر سو گیا۔ یوں محسوس ہوا کہ چند ہی منٹ گزرے ہیں کہ سحری کا وقت ہوگیا تھا ۔ لڑکے نے مجھے جگایا ۔ اٹھا تو کمرے میں بھیڑ تھی ۔ ان کے دوست الوداعی سحری کرنے آئے تھے۔ پارٹی کا سماں تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ سحری کریں ۔اس گندے ہوٹل میں جانا نہیں چاہتا تھاباقی کسی گلی میں مڑنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا ، چناچہ میں نے خاموشی سے دعوت قبول کی ۔نا چاہتے ہوئے چند نوالے لئے ۔ سحری کے بعد وہ سب چلے گئے ۔ اور کمرے کی چابی میرے حوالے کر دی۔ یہ لاہور میں میرے پہلے کمرے کی عارضی ملکیت تھی۔
بارہویں جماعت نہ صر ف پاس کرنے بلکہ بورڈ میں پوزیشن لینے کے بعد زندگی اب یوں گزرے گی، اگلا دن اسی سوچ میں صرف ہوا۔