تحریر: مقصود عالم
حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام اسرائیل تھا لہذا آپ کی آل اولاد بنو اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب کا ایک لقب یہودا بھی تھا لہذا انکی اولاد اور پیروکار یہودی بھی کہلائے بنو اسرائیل وہ قوم ہے کہ جس میں اکثریت پیغمبران تشریف لائے یہ یہودی خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھتے تھے غرور و تکبر کا شکار ہوتے تھے اسی لئے جب بھی یہ طاقت میں آتے تو کچھ عرصہ کے بعد ان پر سختیاں ناز ل ہو جاتی تھیں کیونکہ یہ اللّٰہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے مختلف حیلوں بہانوں سے اللہ کے احکامات میں تحریف کرتے اس لئے ہمیشہ یہ دربدر پھرتے تھے ان کو مستقل کسی جگہ رہنے کی اجازت نہ دی جاتی جب حضرت موسیٰ کلیم اللّٰہ کا دور نبوت آیا تو اس وقت یہودی فرعون مصر کے غلام تھے حضرت موسیٰ نے انہیں فرعون کی غلامی سے آزاد کروایا مگر جب جہاد کا وقت آیا تو یہ کہنے لگے کہ موسیٰ جاؤ تم اور تمہارا خدا کافروں سے جنگ کرے اسی طرح جب ان کے لئے آسمان سے من و سلویٰ نازل ہوا تو یہ ناشکرے پیاز مانگنے لگے پھر جب حضرت موسیٰ اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نائب بنا کر کوہ طور پر اللّٰہ سے ہمکلام ہونے گئے تو یہ لوگ سامری کی باتوں میں آکر بچھڑے کی پوجا کرنے لگے غرضیکہ جتنا لاڈ اس قوم کا اٹھایا گیا انہوں نے اتنی ہی ناشکری سے خود کو اپنے اس مقام سے گرایا اور ہمیشہ راندہءدرگاہ درسگاہ رہے ہمیشہ مستقل وطن کی تلاش میں سرگرداں رہے ہم جدید دور میں ان کو مختلف صدیوں میں مختلف ممالک سے ذلیل و رسواء ہو کر نکالے جانے کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں
گزشتہ 1000 سال کی تاریخ
1080 میں فرانس سے فرار
1098 میں چیک ریپبلک سے فرار
1113 میں کیوان روس سے فرار
1113 میں یہودیوں کا قتل عام
1147 میں فرانس سے نکال دیا گیا۔
1171 میں اٹلی سے فرار
1188 میں انگلینڈ سے نکال دیا گیا۔
1198 میں انگلینڈ سے فرار
1290 میں انگلینڈ سے فرار
1298 میں سوئٹزرلینڈ سے نکال دیا گیا (100 یہودیوں کو پھانسی دی گئی)
1306 میں فرانس سے بے دخل کیے گئے 300 یہودیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
1360 میں ہنگری سے فرار
1391 میں اسپین سے بے دخل کیا گیا (3000 یہودیوں کو پھانسی دی گئی، 5000 کو زندہ جلا دیا گیا) 1394 میں فرانس سے فرار
1407 میں پولینڈ سے بے دخل کیا گیا۔
1492: اسپین سے بے دخل (یہودیوں کے اسپین میں داخلے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا)
1492 میں سسلی سے بے دخل کیا گیا۔
1495 میں لیتھوانیا سے نکال دیا گیا۔
1496 پرتگال سے خروج
1510 میں انگلینڈ سے فرار
1516: پرتگال سے دوبارہ اخراج
1516 میں سسلی میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت یہودیوں کو صرف یہودی بستیوں میں رہنے کی اجازت دی گئی۔
1514 میں آسٹریا سے فرار
1555 میں پرتگال سے نکال دیا گیا۔
1555 میں روم میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت یہودیوں کو یہودی بستیوں میں رہنے کی اجازت دی گئی۔
1567 میں اٹلی سے بے دخل کیا گیا۔
1570 میں جرمنی (برانڈنبرگ) سے نکال دیا گیا۔
1580 میں نوگوروڈ (اور ڈی ٹیریبل) سے بے دخل
1592 میں فرانس سے نکال دیا گیا۔
1616 میں سوئٹزرلینڈ سے نکال دیا گیا۔
1629 میں اسپین اور پرتگال سے نکال دیا گیا (پلٹائیں IV)
1634 میں سوئٹزرلینڈ سے نکال دیا گیا۔
1655 میں سوئٹزرلینڈ سے دوبارہ بے دخل کیا گیا۔
1660 میں کیف سے خروج
1701 میں سوئٹزرلینڈ سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا گیا (پلٹائیں V)
1806 میں نپولین کا الٹی میٹم
1828 میں کیف سے فرار
1933 میں جرمنی سے بے دخلی اور نسل کشی۔
14 مئی 1948 کو فلسطین نے اپنے ملک میں یہودیوں کو پناہ دی۔ مگر آج یہ یہودی انہی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر چکے ان کو کیمپوں میں پناہ گزین کر چکے ان پر روانہ لاکھوں تن بارود برسا رہے ہیں ان کے بچوں عورتوں بوڑھوں مرضوں کسی کا خیال نہیں کیا جا رہا ان کے ہسپتال سکول مساجد تباہ ہو چکے زندگی ان کے لئے عذاب بن چکی پینے کا پانی تک ان پر تنگ کر دیا گیا ہے اور پوری دنیا تو رہی ایک طرف کہ کافروں سے کیا امید رکھیں اپنے ستاون مسلمان ممالک سے کسی بھی ایک حکومت نے مظلوم فلسطینیوں کے لئے کچھ نہیں کیا کافروں سے پوری مدد ظالم کو دی جا رہی مظلوم کا کوئی پرسان حال نہیں جن کے ہزاروں افراد روزانہ شہید ہو رہے وہی ظالم اور دہشت گرد کہلائے جا رہے مگر بہت جلد ان کو پھر ذلالت اور درباری کا دور دیکھنا پڑے گا کیونکہ یہودیوں کو مدینہ سے بد عہدہ اور سازشوں کی بنا پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہودیوں کو شہر سے نکال دیا، اس لیے ان کا کہیں ٹھکانہ نہیں، جس کو حضور نے نکالا ہے اس کی کہیں پناہ نہیں ہے۔
109