131

سلطان راہی ٹائم

تحریر: ساجد آرائیں

ایک ہوتی ہے اکثریت اور ایک ہوتی ہے اقلیت۔ ہمارا ملک ایک ترقی پذیر ملک ہے جسکی اکثریتی آبادی غریب طبقہ، مزدور طبقہ ، دیہاڑی دار طبقہ ، دیہاتی طبقہ ، زمیندار طبقہ ، مڈل کلاس طبقہ ہے۔ یہ اکثریت ہیں۔ ان کا رہن سہن طرز زندگی انکی سپورٹس اور انکی تفریح کے ذرائع عوامی ذرائع کہلاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر چوک چوراہوں ، فٹ پاتھ، بس ویگن اسٹینڈذ ریلوے اسٹیشنوں کے قریب پائے جاتے ہیں۔ جب یہ فلمیں دیکھتے ہیں تو پان سگریٹ کے ساتھ شور شرابہ کرتے ہوئے زندگی سے بھرپور فلم بینی کرتے ہیں۔ قہقے لگاتے ہیں۔ بھڑکیں مارتے ہیں۔ سیٹیاں مارتے ہیں۔ اسی طبقے کے پسندیدہ اداکاروں کو عوامی اداکار مانا جاتا ہے۔ اور اسکی فلموں کو عوامی فلمیں۔ جس اداکار کو اس طبقے نے سر آنکھوں پر بٹھا لیا اسے دنیا کی کوئی طاقت زوال پذیر نہیں کر سکتی۔ وہ ہمیشہ انہی لوگوں میں کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ اکثریت کا غلبہ رہتا ہے۔

اسکے بعد آتا ہے پڑھا لکھا طبقہ , ڈرائنگ روم طبقہ، امیر طبقہ ، یہ اقلیت ہیں۔ انکی آبادی غریب غربا سے بہت کم ہے۔ یہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں انتہائی محدود ہیں۔ انکی سپورٹس ، انکی تفریح کے ذرائع بھی الگ ہیں۔ طرز زندگی الگ ہے۔ رہائشی علاقے الگ ہیں۔ یہ بسوں ویگنوں کے اسٹینڈ ، ریلوے اسٹیشنوں کے قریب نہیں رہتے۔ پھر بھی ان میں سے کچھ لوگ اپنے خول سے باہر نکل آتے ہیں اور انکی پسند اکثریتی طبقے کی پسند کے عین مطابق ہوتی ہے۔ جبکہ زیادہ تر لوگ ڈرائنگ رومز تک ہی محدود رہتے ہیں۔ یہ سوٹڈ بوٹڈ ٹائی شائی لگا کر بڑے مہذب انداز میں سینما دیکھتے ہیں۔ بڑی مشکل سے مسکراتے ہیں۔ اور پھر اسکے نتیجے میں انکے پسندیدہ اداکار بھی ڈرائینگ رومز تک ہی محدود رہتے ہیں۔ لہذا یہ کوئی انہونی نہیں ہے کہ ملک کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے قدرتی طور پر ہی فلم بین بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک تھے اکثریت ، جنہوں نے اپنے پسندیدہ اداکاروں کی ہر فلم کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ دیکھا۔ بار بار دیکھا۔ جنون کی حد تک دیکھا۔ یہ فلم بین طبقہ ضمانت تھا ہر فلم کی کامیابی کا۔ اور دوسرے تھے اقلیت جنہوں نے صرف شوق کی خاطر سینما دیکھا اور اپنے پسندیدہ اداکاروں کو بھی ڈرائنگ روم اداکاروں کا خطاب دلوایا۔


اپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جب سے اکثریتی فلم بینوں نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں تو انڈسٹری کو تالے لگ گئے۔ وہ تالے جنہیں کھولنے کی اب بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ اکثریت کے پسندیدہ اداکار، عوامی اداکار سلطان راہی کو جب ان سے چھین لیا گیا ، سنگل اسکرینز بند ہونا شروع ہو گئیں اور یہ طبقہ فلموں سے منہ موڑ گیا۔ اقلیتی طبقہ ڈرائنگ روم فلم بین تب بھی موجود تھے اب بھی موجود ہیں۔ تب انکے پاس ندیم محمد علی وحید مراد اور شاہد جیسے اداکار تھے اور آج ٹی وی مارکہ اداکار موجود ہیں۔ لیکن رزلٹ سب کے سامنے ہے۔ کتنی ہی کوششیں بے سود جا رہی ہیں۔ کہیں نہ کہیں کچھ تو گڑ بڑ ہے۔ لہذا جب تک اس اکثریت کو فلم دائرے میں نہیں لایا جائے گا، سنگل اسکرینوں کی تعداد نہیں بڑھائی جائے گی، تب تک یہ معاملہ گڑ بڑ ہی رہے گا۔ سنگل اسکرینیں جب تک بڑی تعداد میں سامنے نہیں آئیں گی یہ اکثریتی طبقہ بھی سامنے نہیں آئے گا۔ کیونکہ یہ لوگ جب کسی اداکار سے عشق کرکے عوامی اداکار کی مسند پر بٹھا دیں تو پھر ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو لف فوٹو میں ہے۔
کسی ایک اداکار کے بلند مقام سے دوسرے اداکاروں کا مقام کم نہیں ہو جاتا۔ یہ قدرت کے فیصلے ہیں یہ قدرت نوازتی ہے۔ عوام کے دلوں پر اس حد تک راج کرنا کہ دہائیاں گزر جانے کے باوجود ایسے مناظر دیکھنے کو ملیں یہ قدرت کے فیصلے ہیں۔ کبھی بھی کہیں بھی کیا آپکو ندیم صاحب یا محمد علی یا وحید مراد یا شاہد یا جاوید شیخ یا سدھیر یا اکمل یا درپن کی ایسی پیٹنگ بسوں ویگنوں رکشوں کے پیچھے پینٹ ہوئی نظر آئی۔؟ جیسی جگہ جگہ سلطان راہی کی نظر آتی ہیں۔ اس عشق کو کیا نام دیا جائے۔ ؟ ڈرائنگ روم اداکاروں کی تصاویر ڈرائینگ رومز میں ضرور آویزاں ہوں گی لیکن عوامی اداکار اسی طرح عوام میں امر رہتا ہے۔ ہمیشہ امر رہتا ہے۔ یہ ہے فرق ایک عوامی اداکار اور ایک ڈرائنگ روم اداکار میں۔
سلطان راہی ۔۔۔ تیرے چاہنے والوں کی خیر ۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں